امور خانہ داری
پہلا گھر کہ جس کے دونوں رکن میاں اور بیوی گناہوں سے پاک اور معصوم انسانیت کے فضائل اور کمالات سے مزین ہیں وہ حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کا گھر تھا۔ حضرت علی (ع) ایک اسلامی مرد کا مل نمونہ تھے اور حضرت زہرا (ع) ایک مسلمان عورت کا کامل نمونہ تھیں۔
علی ابن ابی طالب نے بچپن سے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دامن میں اور آپ کی زیر نگرانی تربیت پائی تھی۔ کمالات اور فضائل اور بہترین اور اعلی ترین اسلامی اخلاق کے مالک تھے، جناب زہرا(ع) نے بھی اپنے باپ کے دامن میں تربیت پائی تھی اور آپ اسلامی اخلاق سے پوری طرح آگاہ تھیں۔ آپ لوگوں کے کان بچپن سے قرآن سے مانوس تھے۔ رات دن ا ور کبھی کبھار قرآن کی آواز خودپیغمبر (ص) کے دہن مبارک سے سنا کرتے تھے۔ غیبی اخبار اور روحی سے آگاہ تھے اسلام کے حقائق اور معارف کو اس کے اصلی منبع اور سرچشمہ سے دریافت کرتے تھے اسلام کا عملی نمونہ پیغمبر اسلام(ص) کے وجودی آئینہ میں دیکھا کرتے تھے اسی بناء پر گھر یلو زندگی کا اعلی ترین نمونہ اس گھر سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔
علی (ع) اور فاطمہ (ع) کا گھر واقعاً محبت اور صمیمیت کا با صفا محور تھا۔ میاں بیوی کمال صداقت سے ایک دوسرے کی مداد اور معاونت کر رہے تھے گھر یلوکاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ بیاہ کے ابتدائی دنوں میں پیغمبر (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ گھر کے کام کاج ہم میں تقسیم کردیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گھر کے اندرونی کام فاطمہ انجام دیں گی اور بیرونی کام علی (ع) کے ذمہ ہوں گے فاطمہ (ع) فرماتی ہیں کہ میں اس تقسیم سے بہت خوش ہوئی کہ گھر کے بیرونی کام میرے ذمہ نہیں گئے ۔(1)
جی ہاں فاطمہ (ع) وحی کی تربیت یافتہ تھیں اور جانتی تھیں کہ گھر ایک اسلام کا بہت بڑا مورچہ ہے ، اگر عورت کے ہاتھ سے یہ مورچہ نکل گیا اور خرید و فروخت کے لئے گھر سے باہر نکل پڑی تو پھر وہ امور خانہ داری کے وظائف اور اولاد کی تربیت اچھی طرح انجام نہیں دے سکے گی یہی وجہ تھی کہ آپ اس تقسیم سے خوش ہوگئیں کہ گھر کے مشکل اور سخت کام علی (ع) کے سپرد کئے گئے ہیں۔
اسلام کی بے مثال پہلی شخصیت کی بیٹی کام کرنے کو عارنہ سمجھتی تھی اور گھر کے مشکل کاموں کی بجا آوری سے نہیں کتراتی تھیں، آپ نے اس حد تک گھر کے کاموں میں زحمت اٹھائی کہ خود حضرت علی علیہ السلام آپ کے بارے میں یاد کرتے تھے اور آپ کی خدمات کو سراہا کرتے تھے آپ نے اپنے ایک دوست سے فرمایا تھا کہ چاہتے ہو کہ میں اپنے اور فاطمہ (ع) کے متعلق تمہیں بتلاؤں۔
اتنا میرے گھر پانی بھی کر لائی ہیں کہ آپ کے کندھے پر مشک کا نشان پڑ گیا تھا اور اتنی آپ نے چکی پیسی کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے تھے، اتنا آپ نے گھر کی صفائی اور پاکیزگی اور روٹی پکانے میں زحمت اٹھائی ہے کہ آپ کا بساس میلا ہوجانا تھا۔ آپ پر کام کرنا بہت سخت ہوچکا تھا میں نے آپ سے کہا تھا کتنا بہتر ہوگا کہ اگر آپ پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر حالات کاآپ(ص) سے تذکرہ کریں شادی کوئی کنیز آپ کے لئے مہیا کردیں۔ تا کہ وہ آپ کی امور خانہ داری میں مدد کرسکے۔
جناب فاطمہ (ع) پیغمبر(ص) کی خدمت میں گئیں لیکن اصحاب کی ایک جماعت کو محو گفتگو دیکھ کر واپس لوٹ آئیں اور شرم کے مارے آپ سے کوئی بات نہ کی۔ پیغمبر(ص) نے محسوس کرلیا تھا کہ فاطمہ (ع) کسی کام کی غرض سے آئی تھیں، لہذا آپ(ص) دوسرے دن ہمارے گھر خود تشریف لے آئے اور اسلام کیا ہم نے جواب سلام دیا آپ ہمارے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) کس لئے میرے پاس آئی تھیں؟ جناب فاطمہ (ع) نے اپنی حاجت کے بیان کرنے میں شرم محسوس کی حضرت علی (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) ، فاطمہ (ع) اس قدر پانی بھر کر لائیں ہیں کہ مشک کے بند کے داغ آپ کے سینے پر پڑچکے ہیں اتنی آپ نے چکی چلائی ہے کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے ہیں اتنا آپ نے اپنے گھر کی صفائی کے لئے جھاڑو دیئے ہیں کہ آپ کا لباس غبار آلود اور میلا ہوچکا ہے اور اتنا آپ ن خوراک اور غذا پکائی ہے کہ آپ کا لباس کثیف ہوگیا ہے۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کی خدمت میں جائیں شاید کوئی کنیز اور مددگار آپ انہیں عطا فرما دیں۔
پیغمبر(ص) نے فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) کیا تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جو کنیز سے بہتر؟ جب سونا چاہو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمد اللہ، چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو۔ یہ ذکر ایک سو سے زیادہ نہیں۔ لیکن اس نے نامہ عمل میں ایک ہزار حسنہ لکھا جاتا ہے۔ فاطمہ (ع) ، اگر اس ذکر کو ہر روز صبح پڑھو تو خداوند تیرے دنیاا ور آخرت کے کاموں کی اصلاح کردے گا۔ فاطمہ (ع) نے جواب میں کہا ابا جان میں خدا اور اس کے رسول سے راضی ہوگئی ۔(2)
ایک دوسری حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ فاطمہ (ع) نے اپنے حالات اپنے با با سے بیان کئے اور آپ(ص) سے ایک لونڈی کا تقاضا کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا۔ فاطمہ (ع) خدا کی قسم چار سو آدمی فقیر اس وقت مسجد میں رہ رہے ہیں کہ جن کے پاس نہ خوراک ہے اور نہ ہی لباس مجھے خوف ہے کہ اگر تمہارے پاس لونڈی ہوئی تو گھر میں خدمت کرنے کا جو اجر و ثواب ہے وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ مجھے خوف ہے کہ علی ابن ابی طالب قیامت کے دن تم سے اپنے حق کا مطالبہ کریں اس کے بعد آپ نے تسبیح زہرا(ع) آپ کو بتلائی۔ امیرالمومنین نے فرمایا کہ دنیا کی طلب کے لئے پیغمبر(ص) کے پاس گئی تھیں لیکن آخرت کا ثواب ہمیں نصیب ہوگیا۔(3) ایک دن پیغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے دیکھا کہ علی (ع) اور فاطمہ (ع) چکی چلانے میں مشغول ہیں آپ نے پوچھا تم میں سے کون تھک چکا ہے؟ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی کہ فاطمہ (ع) ، چنانچہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کی جگہ بیٹھ گئے اور حضرت علی کی چکی چلانے میں مدد کی۔(4)
جناب جابر کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے دیکھا کہ جناب فاطمہ (ع) معمولی قیمت کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہیں اور بچوں کو گود میں لئے ہوئے دودھ پلاتی ہیں یہ منظر دیکھ کر آپ کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا میری پیاری بیٹی دنیا کی سختی اور تلخی کو برداشت کرو تا کہ آخرت کی نعمتوں سے سرشار ہوسکو آپ نے عرض کیا، یا رسول اللہ(ص) میں اللہ تعالی کی ان نعمتوں پر شکر گزار ہوں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا قیامت کے دن اتنا تجھے عطا کرے گا کہ تو راضی ہوجائے ۔(5)
اما م جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت علی (ع) لکڑیاں اور گھ کا پانی مہیا کرتے تھے اور گھر کی صفائی کرتے تھے اور جناب فاطمہ (ع) چکی پیستی تھیں اور آٹا گوندھتی اور روٹی پکاتی تھیں۔(6)
ایک دن جناب بلال خلاف معمول مسجد میں صبح کی نماز میں دیر سے پہنچے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی آپ نے عرض کیا۔ جب میں مسجد آرہا تھا تو جناب فاطمہ (ع) کے گھر سے گزرا میں نے دیکھا کہ آپ چکی پیس رہی ہیں اور بچے رو رہے ہیں، میں نے عرض کی اے پیغمبر کی بیٹی ان دو کاموں میں سے ایک میرے سپرد کردیں تا کہ میں آپ کی مدد کروں، آپ نے فرمایا بچوں کو بہلانا مجھے اچھا آتا ہے اگر تم چاہتے ہو تو چکی چلا کر میری مدد کر و میں نے چکی کا چلانا اپنے ذمہ لے لیا اسی لئے مسجد میں دیر سے آیا ہوں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو نے فاطمہ (ع) پر رحم کیا ہے خدا تم پر رحم کرے۔ (7)
—
[2] بحارالانوار، ج 43 ص 82۔ 134۔
[3] بحارالانوار، ج 43 ص 85۔
[4] بحار الانوار، ج 43 ص 50۔
[5] بحار الانوار، ج 43 ص 86۔
[6] بحار الانوار، ج 43 ص 151۔
[7] ذخائر العقبی ، ص 51۔
| فہرست |